کیا گیت گانے سے ہماری صحت بہتر ہو سکتی ہے؟

موسیقی یا گانا روح کی غذا ہے اور بقول شاعر، ’ہر دل جو پیار کرے گا، گانا گائے گا‘۔ تاہم جدید تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اس کے جسمانی اور ذہنی فائدے بھی ہو سکتے ہیں۔
گانا سانس کی شکایت والے افراد کے پھیپھڑے بہتر کرتا ہے اور یادداشت کی کمزوری کی بیماری یعنی ڈیمینشیا کی علامتوں سے نمٹنے میں مدد بھی دے سکتا ہے۔
گذشتہ دو دہائیوں میں محققین نے گانا گانے کے نفسیاتی، جسمانی اور انسانی رویے پر پڑنے والے صحت مند اثرات کو سمجھنے کو کوشش کی ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی کالج آف لندن کی پروفیسر ڈیزی فنکورٹ کہتی ہیں کہ گانا گانے سے انسانی جسم پر کئی صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
’اس سے اعصابی دباؤ پیدا کرنے والے کارٹیزول جیسے ہارمونز کم ہو سکتے ہیں۔ ہم اس سے اینڈورفینز (درونی افیون) جیسے ہارمونز میں کمی بیشی دیکھ سکتے ہیں جن سے ہمارے موڈ میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔

مختلف نوعیت کے اثرات

پروفیسر فنکورٹ نے گانے سے صحت کی بہتری کے بارے میں پیدا ہونے والے اثرات پر گہری تحقیق کی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ اس کے کئی فوائد ہیں۔
گانا ایک کثیرالجہتی صحت مند کام ہے۔ اس کام کے کئی حصے ہیں۔
گانے سے آپ اپنے اُن جذبات کا اظہار کرتے ہیں جو ہم جانتے ہیں کہ ’ہماری ذہنی صحت کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ ان سے دوسروں سے بہتر انداز میں ملنے جلنے کا موقع بھی ملتا ہے جس سے آپ الگ تھلگ ہونے کے احساس سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔‘
پروفیسر فنکورٹ کہتی ہیں کہ گانا سننے سے بھی فائدے دیکھنے میں آئے ہیں۔
’ان میں موسیقی کے پروگراموں کو سننے کے لیے جانا، چاہے وہ کلاسیکی موسیقی ہو یا مقبولِ عام موسیقی ہو، ہماری تحقیق میں یہ نظر آیا ہے کہ اس سے دباؤ پیدا کرنے والے ہارمونز میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے ماحول کے سیاق و سباق کے عوامل کے اثرات اپنا بہتر اثر پیدا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘
برطانیہ میں کینٹربری کرائسٹ چرچ یونیورسٹی کے سنہ 2011 میں لکھے گئے ایک تحقیقی مقالے سے معلوم ہوا کہ ’گانے سے ان افراد کو فائدہ ہوتا ہے جنھیں جسمانی اور ذہنی مسائل لاحق ہوتے ہیں۔‘

اس تحقیق کے مطابق، ’ایسی انجمنیں جہاں گانا گایا جاتا ہے وہ اپنے ارکان کی کافی عرصے سے موجود ذہنی بیماریوں کی شدت میں کمی لانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

مراقبہ

جرمنی میں رہنے والی اینابل جو کوائر مغنیہ ہیں اور یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس کرتی ہیں کہ گانے کے جسمانی اور ذہنی صحت پر بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
’جب میں گاتی ہوں تو ایسا محسوس کرتی ہوں جیسے مراقبے میں بیٹھی ہوں۔ میں اپنے آپ کو موسیقی میں ڈبو لیتی ہوں۔ مجھے واقعی بہت اچھا لگتا ہے۔‘
وہ ہر جمعرات تین گھنٹے کے لیے گانا گانے کی مشق کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’گانے میں آپ کا پورا جسم شامل ہوتا ہے۔ میں اسی وجہ سے جم بھی نہیں جاتی ہوں۔‘

ذہنی جبلتوں کا انحطاط (ڈیمینشیا)

ذہنی جبلتوں کے کمزور ہونے والی بیماری جو ڈیمینشیا کہلاتی ہے، اس کے لیے موسیقی اور خاص طور پر گیت گانے کو، علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سائمن اوفر کہتے ہیں کہ جب ہم گاتے ہیں تو دماغ کے ایک حصے میں خون کے بہاؤ کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس حصے کو پری کورٹکل کہتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے ’جہاں ڈیمینشیا پنپتا ہے جب خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ اسی حصے کا احساسات سے بھی تعلق ہے۔‘
انگلینڈ کے شہر چیلتھم کے فیملی ڈاکٹر، سائمن اوفر کہتے ہیں کہ گانوں کو سننے سے ڈیمینشیا کے متاثرین افراد کے جذبات جاگتے ہیں جس کی بدولت وہ اپنے ماحول کے معاملات میں شامل ہوتے ہیں۔

موسیقی کے فوائد

اگر آپ کسی گروہ کے ساتھ مل کر گاتے ہیں تو اُس کے کئی فائدے ہوتے ہیں۔
مائنڈ سانگ کی میوزک ڈائریکٹر میگی گریڈی کہتی ہیں کہ انھیں بوڑھوں کے دیکھ بھال کرنے والے بتاتے ہیں کہ گانے سننے اور گانا گانے سے ان بوڑھوں کو سکون ملتا ہے اور موڈ اچھا ہو جاتا ہے جو اگلے دن تک برقرار رہتا ہے۔‘
مائنڈ سانگ کینسر سے لے کر دمے جیسے پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے بھی گانے سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
’گلوکاری سیکھنے کی پانچ یا چھ کلاسوں کے بعد چند شرکا نے اپنی سانس کے پیک فلو میں بہتری محسوس کی۔‘
’پیک فلو‘ سے مراد یہ ہے کہ سانس کتنی تیزی سے پھیپھڑوں سے باہر نکلتی ہے۔ اس سے سانس کی بیماری میں مبتلا مریضوں کی صحت کا معیار ماپا جاتا ہے۔
پھیپھڑوں کی طاقت

برطانیہ کی ایک خیراتی تنظیم ’مائینڈ سانگ‘ اپنے گلوکاروں کو اولڈ ہومز (بزرگ افراد کے لیے بنائے گئے مراکز) میں اکثر و بیشتر بھیجتی رہتی ہے جو ان کی گانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
لیے اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہئیے کہ جو افراد شدید قسم کی سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اپنی حالت بہتر محسوس کرنے کے لیے گانا گانے کی کافی کوشش کرتے ہیں۔
کولِن کو ایڈیو پلمونیری فائبروسِس نامی ایک سانس کی بیماری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، جن افراد کو یہ وائرس لگ جاتا ہے ان میں سے نصف تین برس کے اندر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
لیکن اپنی اس بیماری کی شدت کے باوجود کولِن کہتے ہیں کہ گانا گانے سے ان کی حالت بہتر ہوتی ہے۔
’میں 16 افراد کے ایک گروہ کے ساتھ گاتا ہوں۔ اس سے مجھے سانس کو بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ میں باقاعدگی کے ساتھ پھیپھڑوں کی صحت کا ٹیسٹ کرواتا رہتا ہوں، اور اب کچھ بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔‘

ہارمونز

گلوکاری سے جسم میں اینڈورفینز (درونی افیون) پیدا ہوتے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے مسرت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

گانے سے ہمیں گہری سانس لینا پڑتی ہے جس کی وجہ سے جسم میں خون کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے اینڈورفینز کا اثر بڑھ جاتا ہے۔
اینڈروفینز جسم میں خون کے بہاؤ میں تیزی سے اسی طرح کا اثر پیدا کرتے ہیں جیسا ہنسنے یا چاکلیٹ کھانے سے پیدا ہوتا ہے۔
ایک اور تحقیق سے انکشاف ہوا کہ اعصابی دباؤ بڑھانے والے ہارمونز ’کورٹیزول‘ کی مقدار میں عام حالات کی نسبت، صرف 40 منٹ گروپ میں گانا گانے سے زیادہ تیزی سے کمی آئی۔
عام طور پر ہمارے جسم میں کورٹیزول کی مقدار میں کمی آنے میں ایک دن لگ جاتا ہے۔ لیکن گانا گانے سے اس کی مقدار میں کمی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔
کوائر میں گانا گانے سے آکسی ٹوسن نامی ہارمونز پیدا ہوتے ہیں، جن کو عام طور پر پیار و محبت والے ہارمونز کہا جاتا ہے۔
’جب ہم کسی کو پیار سے گلے لگاتے ہیں تو اس کا ہمارے جسم میں اخراج ہوتا ہے، اور ایک دوسرے کے لیے اعتماد اور انسیت کے احساسات بیدار ہوتے ہیں۔
شاید اس بات سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ جو لوگ ایک گروپ میں گاتے ہیں وہ ایک دوسرے کے لیے دوستی کا زیادہ جذبہ رکھتے ہیں۔
گانے سے جسم میں ڈوپامین نامی مادے کا اخراج بھی ہوتا ہے جو دماغ کے اعصابی ریشوں سے رسنے والا کیمیائی مادہ ہے۔
اس کیمیائی مادے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مخصوص قسم کے محرکات مثلاً مزیدار غذا یا کوکین وغیرہ کھانے سے اس کا اخراج ہوتا ہے اور یہ مسرت کا احساس پیدا کرتا ہے۔
انٹرنیٹ کا سہارا
وہ لوگ جو گانا گانے کے لیے باہر نہیں جا سکتے ہیں وہ آن لائن ’ورچوئل کوائر‘ میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ورچوئل کوائر یا انٹرنیٹ کمیونٹی کے ساتھ گانے میں بھی وہی ماحول پیدا ہوتا ہے جو باقاعدہ قسم کے گروپس میں گانے سے پیدا ہوتا ہے۔
اس کا مقصد دنیا بھر کے گانا گانے والوں کا انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ بڑھانا ہے۔
دنیا کے معروف ایوارڈ گریمی حاصل کرنے والے موسیقار ایرِک وِٹیکر انٹرنیٹ پر اسی قسم کا ایک ’ورچوئل کوائر‘ چلاتے ہیں۔
مختلف گلوکار دنیا کی مختلف جگہوں سے اپنے اپنے گانے اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ان کو پھر اکٹھا کر کے ہم آہنگ کیا جاتا ہے اور ایک پرفارمنس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

آفاقیت

برطانیہ کی ایک یونیورسٹی ایسٹ اینگلیا کی سنہ 2017 کی ایک تحقیق کے مطابق، جو گلوکار ہفتہ وار کسی گانے کی مفت ورکشاپ میں شامل رہے ہیں ان کا موڈ بہت خوشگوار رہتا ہے اور وہ دوسروں سے ملنے جلنے کے ہنر میں بہتر ہوتے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق جو لوگ گانا گانے کی سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ ذہنی بیماریوں سے نکل آتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو کارآمد سمجھتے ہیں، اپنی قدر بہتر طور پر کر سکتے ہیں جو انھیں دوسروں سے ملنے جلنے میں مدد دیتی ہے۔

لبرٹی کوائر نامی ایک موسیقی گروپ کی ڈائریکٹر ایم جے پارانزینو کہتی ہیں کہ ’گھروں میں رہنے والے شروع شروع میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، لیکن جب انھوں نے گانا گانے کا آغاز کیا تو انھوں نے دوسروں کی نظروں سے نظریں ملانا شروع کر دیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ 20 برسوں میں انھوں نے دیکھا کہ لوگ موسیقی کے گروپوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل ہو رہے ہیں۔
’یہ اسی طرح ہے کہ جیسے آپ ایک مشغلہ شروع کریں جس کے ذریعے آپ اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے آپ کو بہترین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

ذہنی رکاوٹ

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ دوسرے کے ساتھ مل کر گانے کے نتیجے میں میل جول بڑھتا ہے، تنہائی کے احساس میں کمی ہوتی ہے اور سماجی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔
سکول کے ان بچوں اور بچیوں سے ذرا مختلف جو اپنے سکولوں میں موسیقی کی کلاسیں جوش و جذبے کے ساتھ لیتے ہیں، بڑی عمر کے لوگ موسیقی کے گروہوں میں جانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔
پارانزینو کہتی ہیں کہ ’ان بڑی عمر کے لوگوں کے لیے گانے کی کلاس کا پہلا دن تقریباً اُسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ کام پر جانے کا پہلا دن۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کسی ایسی جگہ آ گئے ہیں جہاں آپ اجنبی ہیں، اور آپ ذرا شرم محسوس کرتے ہیں۔ ایسی جگہ جانے میں ایک ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے ہی .آپ اس ذہنی رکاوٹ پر قابو پا لیتے ہیں تو آپ بہت ہی حیرت انگیز نئی دنیا محسوس کریں گے

News Source  BBC.COM/Urdu

صو